مغرب سے آنے والی تن آسانیاں جدیدیت کے نام پر بغیر سوچے سمجھے اپنانے میں ہم دیر نہیں لگاتے چاہے وہ کتنی ہی ضرر رساں کیوں نہ ہوں۔ مادہ پرست قومیں جن کا مشرقی اقدار سے کوئی تعلق ہی نہیں اور جن کا کلچر، تہذیب، نظریہ حیات ہی ان کی سوچ کے دائرے زندگی کے ہر پہلو پر حاوی اور کار فرما ہیں۔ روحانیت سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں۔
ڈائپر کی ایجاد مغرب میں ہوئی لیکن ہم نے اس تن آسانی کو فوراً اپنا لیا بغیر یہ سوچے کہ اس کے کیا نقصانات بچے کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔پہلا نقصان تو یہ ہے کہ ماں بچہ کو ڈائپر باندھ کر بچہ کی طرف سے غافل ہوگئی۔ اب توجہ ہٹتے ہی خود سکون کی نیند سوگئی اور بچہ ماں کی توجہ سے محروم ہوگیا۔ کہاں ماں ساری رات اپنی نیند قربان کرکے تھوڑی تھوڑی دیر بعد بچہ کو دیکھتی رہتی تھی کہ بچہ پیشاب سے بھیگ نہ جائے بے آرام نہ ہو جائے‘ سردی نہ لگ جائے وغیرہ۔دوسرا نقصان یہ ہے کہ بچہ ماں کی توجہ سے محروم ہوکر بے سکون اور بے چین ہوگیا۔ پہلے تو پیشاب وغیرہ سے بھیگ کر عارضی طور پر بے سکون ہوسکتا تھا مگر اب ماں کی توجہ سے محروم ہوکر بے چین ہو جانا یقینی امر ہے جو اس کو بالآخر بے سکونی محرومی، خوف اور تنہائی کا شکار کردیتا ہے جوجوانی میں بچہ کی شخصیت کا خاصہ بن جاتا ہے۔ ماں کی توجہ سے بچہ شفقت، محبت اور ہمدردی کے جذبات محسوس کرتا ہے اور بچہ کے اندران جذبات کی آبیاری ہوتی رہتی ہے۔ بچہ تنہائی اور خوف کا شکار نہیں ہوتا اور ہر لمحہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے اور یہ چیزیں اس کی شخصیت کو پروان چڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ علاوہ ازیں ماں کے جذبات، احساسات اور توجہات بچہ کی شخصیت میں مثبت انداز فکر اور سوچ پیدا کرتے ہیں۔تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ ماں ڈائپر باندھ کر بچے کے رفع حاجت کے اوقات سے لاعلم ہوجاتی ہے۔ بچہ کا پیشاب پاخانہ ڈائپر میں خودبخود نکلنا شروع ہو جاتا ہے اور بچہ کو ان اعصاب پر کنٹرول نہیں ہو پاتا جو رفع حاجت میں اس کے مددگار ومعاون ہوتے ہیں۔ پہلے مائیں بچہ کو چند ماہ کا ہوتے ہی پیروں پر بٹھا کر رفع حاجت کیلئے اشارہ کرتی تھیں چند بار کے تجربے سے گزرنے کے بعد بچہ ماں کے پیشاب کرنے کے اشارہ کو سمجھنا شروع کردیتا تھا اور پھر بچہ ماں کے اشارہ کرنے پر ہی پیشاب وغیرہ کرتا تھا اس طرح اس کو اپنے ان اعصاب کو جو رفع حاجت میں معاون ہوتے ہیں حرکت میں لاتا تھا اوراس سے بچہ کو اپنے اعصاب پر کنٹرول بھی حاصل ہو جاتا تھا اور بچہ بستر پر پیشاب نہیں کرتا بلکہ روکر ماں کو متوجہ کرتا ہے میں نے اس طرح چار پانچ ماہ کے بچہ کو ماں کے اشارہ پر رفع حاجت کرتے دیکھا ہے۔یہ سب کچھ ماں اور بچہ کے درمیان خاموش زبان سے رابطہ کا باعث تھا جس کا ڈائپر کی وجہ سے فقدان ہوگیا۔چوتھی بات یہ کہ آج کی ماں نے بچہ کوڈائپر باندھ کر غلاظت کی پوٹلی بنادیا۔ شروع شروع میں بچہ غلاظت جسم سے بندھے رہنے کی وجہ سے کراہت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور سخت بے چینی محسوس کرتا ہے مگر ماں ان چیزوں کو محسوس ہی نہیں کرتی۔ اور بے فکر رہتی ہے۔ جس سے ماں اور بچے کے درمیان دوری پیدا ہو جاتی ہے۔پانچویں اور آخری بات یہ کہ نجاست، غلاظت جسم سے تا دیر بندھے رہنے کے باعث برے اثرات ضرور رکھتی ہے۔ بچہ پر اس کے کیا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا ہمیں ادراک ہی نہیں۔ جسمانی کے علاوہ روحانی اثرات ضرور ہیں کیونکہ انسان روح اور جسم کا مجموعہ ہے جب جسم نجاست سے لتھڑا ہوا ہو تو روح میں پاکیزگی کس طرح آئے گی؟ روح کو پاکیزہ رکھنے کے لیے جسم کا پاکیزہ ہونا لازمی ہے۔ اسی لئے تمام عبادات جسمانی پاکیزگی کی مرہون منت ہیں۔ جبکہ جادو گری اور کالے علم کے عامل گندگی میں غرق ہوتے ہیں اور گندگی سے ہی برے اعمال کرتے ہیں۔قارئین! ڈائپر سہولت ہے‘مگر اس کو اتنا زندگی کا حصہ بنالینا کہ بچہ ہروقت اس گندگی کے ساتھ چپٹا رہے درست نہیں‘ سفر میں ہیں یا پھرسخت سردی کی راتیں ہیں یا بچہ بیمار ہے تو استعمال کرسکتے مگر ہروقت ڈائپر لگا کر ماں بچے سے ہی لاپرواہ ہوجائے‘ اسے اپنی ممتا سے ہی محروم کردے تو ایسی صورت میں ڈائپر سے بڑھ کر ماں بیٹے کی محبت کا دشمن اور کوئی نہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں